Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۲(کتاب الحظر والاباحۃ)
18 - 146
باردوم :  از حیدر آباد دکن محلہ سلطانپور مرسلہ سید عبدالرزاق صاحب وکیل ہائی کورٹ وسیکرٹری اسٹیٹ نواب فخر الملک بہادر وزیر جوڈیشل وپولیس ڈیپارٹمنٹ

بدیں عبارت بعالی خدمت عالی جناب مولوی احمد خاں صاحب قبلہ جو نمونہ کپڑے کا پیش ہے کہاجاتاہے یہ ٹسر ہے۔ ٹسر اور ریشم کی تعریف ذیل میں ہے :
ریشم : ریشم کے کیڑے پرورش کئے جاتے ہیں جب ان کے انڈے بچے ہوکر بڑے ہوتے ہیں تو پانی میں ان کو جوش دیا جاتاہے جب وہ گھل جاتے ہیں تو ان سے تار نکالا جاتاہے وہی ریشم ہے۔

ٹسر : ٹسر کےکیڑے اس ملک میں بھی ہوتے ہیں جیسے بیر کے درخت کے کیڑے۔ یہ مثل ریشم کے کیڑوں کے پرورش نہیں کئے جاتے بلکہ قدرتا ایک بونڈی میں پرورش پاتے ہیں۔ جب وہ خود بخود ہونے کے بعد مرجاتے ہیں تو بونڈی سے تار نکال لئے جاتے ہیں وہی ٹسر ہے۔
ریشم کی چمک اور ملائمت ٹسر میں نہیں ہوتی۔ اور چنیا سلک عورتوں کے لباس کے کام میں نہیں آتا۔ اوریہ کپڑا مثل چھلواری کے متعدد باردھل سکتاہے اور چھلواری سے مضبوط ہوتاہے۔ اکثر علماء ومشائخ اسے پہنتے ہیں۔ مکہ مکرمہ ومدینہ طیبہ میں بھی علماء وخطباء کو پہنتے دیکھا گیا، اب یہ شبہہ پیدا ہورہا ہے کہ شرعا اس خاص کپڑے کا پہنا درست ہے یانہیں؟ اور اس سے نمازجائز ہوسکتی ہے یا نہیں؟ ہم نے حریر، دیبا خبز عھ، کے احکام صحیح بخاری ومسلم ومشکوٰۃ شریف وہدایہ وفتاوٰی عالمگیری وغیرہ میں تفصیل سے دیکھے لیکن یہ تشفی نہیں ہوئی کہ یہ خاص کپڑا مشروع ہے یانہیں؟ لہذا صرف اس قدر دریافت کرنا منظور ہے کہ یہ کپڑا جو اس کے ساتھ پیش ہے مشروع ہے اور اس سے نماز جائز ہوجاتی ہے یانہیں؟ کیونکہ آج کل اس کپڑے کا بہت رواج ہورہا ہے اس لئے مسلمانوں کو شک وشبہہ سے بچانے کے لئے اس خاص کپڑے کے جواز یا عدم جواز کا فتوٰی ضرور ہے۔
الجواب : اللھم لک الحمد،
جو کپڑا فقیر نے دیکھا ہے او اس کے متعلق بیان سائل نظر سے گزرا، اس نے صورۃ وصفۃ حریر سے مشابہت نہ پائی۔ یہ بہت خشن کثیف، ردی، اکثر معمولی کپڑوں سے بھی گری حالت میں ہے اسے نعومت، ملاست، نظافت، ایراث، تزین، وتکبر وتفاخر سے کچھ علاقہ نہیں۔ قیمت میں بھی سنا گیا ہے، کہ بہت ارزاں ہے۔ وہ کرم جس سے یہ پیدا ہوتا ہے مسموع ہوا کہ وہ دود القز کے علاوہ اورکیڑا ہے۔ اس کی غذا ورق فرصاد یعنی برگ توت ہے۔ اور اس کی ورق الخروع یعنی برگ بید انجیرجسے ہندی میں انڈی اور دیاربنگلہ میں رینڈی کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے یہ کپڑا وہاں انھیں ناموں سے مسمی ہے، اصل اشیاء میں اباحت ہے۔ جب تک شرع سے تحریم ثابت نہ ہو اس پر جرأت ممنوع و معصیت ہے۔
قال اﷲ تعالٰی اﷲ اٰذن لکم ام علی اﷲ تفترون o۱؎
اللہ تعالٰی نے فرمایا: ان لوگوں سے فرمادیں (یعنی دریافت کریں) کیااللہ تعالٰی نے تمھیں ایسا کرنے کی اجازت دے رکھی ہے یا تم ویسے ہی اللہ تعالٰی پر جھوٹ باندھ رہے ہو؟ (ت)
 (۱؎ القرآن الکریم      ۱۰/ ۵۹)
وقال تعالٰی ولا تقولوا لما تصف السنتکم الکذب ھذا حل وھذا حرام لتفتروا علی اﷲ الکذب ط ان الذین یفترون علی اﷲ الکذب لایفلحون ۲؎o
ایک اور مقام پر اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ (لوگو!) تمھاری زبانیں جو کچھ جھوٹ بیان کرتی ہیں اس سلسلے میں یہ نہ کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام تاکہ اللہ تعالٰی پر جھوٹ باندھو ،یقیناجو لوگ اللہ تعالٰی پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ (ت)
 (۲؎القرآن الکریم   ۱۶ /۱۱۶)
علامہ عبدالغنی نابلسی فرماتے ہیں:
لیس الاحتیاط فی الافتراء علی اﷲ تعالٰی باثبات الحرمۃ والکراھۃ الذین لابدلھما من دلیل بل فی القول بالاباحۃ التی ھی الاصل ۳؎۔
اللہ تعالٰی پر افتراء کرنے میں کوئی احتیاط نہیں کہ حرمت اور کراہت ثابت کرے اس لئے کہ ان دونوں کے لئے دلیل ضروری ہے بلکہ احتیاط اس کو مباح کہتے ہیں اس لئے کہ یہی اشیاء میں اصل ہے۔ (ت)
 (۳؎ ردالمحتار  بحوالہ الصلح بین الاخوان  فی اباحۃ شرب الدخان  کتاب الاشربہ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/۲۹۶)
اشباہ میں ہے :
  فی الہدایۃ من فصل الحداد ان الاباحۃ اصل انتھی ویظھر ھذا الاختلاف فی المسکوت عنہ ویتخرج علیھا ما اشکل حال فمنھا الحیوان المشکل امرہ والنبات المجھول وسمیتہ ۱؎۔
ہدایہ کی فصل حداد میں ہے کہ اباحت اصل ہے انتہی اور جس چیز سے سکوت ہے (یعنی مسکوت عنہ) میں یہ اختلاف ظاہر ہوتاہے اباحت پر ان مسائل کی تخریج کی جاتی ہے۔ جن کاحال معلوم کرنا مشکل ہوپس ان میں سے ایک تو وہ حیوان ہے جس کا معاملہ مشتبہ ہو اور دوسرے وہ نامعلوم جڑی بوٹیاں ہیں اور ان کا زہریلا ہوناہے۔ (ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر     الفن الاول قاعدہ ھل الاصل فی الاشیاء الاباحۃ     ادارۃ القرآن کراچی    ۱ /۹۸۔ ۹۷)
غمز العیون میں ہے :
قولہ والنبات المجھول الخ یعلم منہ شرب الدخان ۲؎۔
مصنف کاا ندیشہ ہے والنبات المجھول الخ اس سے دھواں نوشی کا حکم معلوم ہوجاتاہے۔ (ت)
 (۲؎ غمز العیون         الفن الاول  قاعدہ ھل الاصل فی الاشیاء الاباحۃ     ادارۃ القرآن کراچی    ۱ /۹۸)
ردالمحتارمیں ہے :
الذی یظھر ان ھذہ الدودۃ ان کانت غیر مائیۃ المولد وکان لھا دم سائل فھی نجسۃ ولا فطاھرۃ فلا یحکم نجاستھا قبل العلم بحقیققتھا ۳؎۔
وہ جو ظاہر ہوتاہے کہ اگر ان کیڑوں کی جائے پیدائش پائی نہیں اور ان میں بہنے والا خون ہے تو وہ ناپاک ہیں بصورت دیگر پاک ہیں لہذا ان کی حقیقت معلوم ہونے سے قبل ان پر نجاست کاحکم نہیں دیا جاسکتا۔ (ت)
 (۳؎ ردالمحتار   کتاب الطہارت   داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۲۲۰)
ادعائے تحریم کے لئے لازم ہے کہ شرع سے خاص اس کپڑے کی حرمت پر دلیل قائم ہو یا ثبوت کافی دیا جائے کہ شرعا حریر اس کپڑے کوکہتے ہیں کہ جو کیڑے کے لعاب سے بنایا جایا اگر چہ دودالقز کا غیر ہو اگر چہ اس میں کوئی وجہ تزئین وتفاخر وتشبہ بالجبابرۃ والاکاسرۃ کی نہ ہو و ودونھما خرط القتاد (اور ان دو کے بغیر صرف کانٹوں پر ہاتھ پھیرنا ہے یعنی سوائے تکلیف کچھ حاصل نہیں۔ ت) یہ ایک مثال ہے جو کسی کام کے غیر حصول کے لئے بیان کی جاتی ہے۔ مترجم) بالجملہ جب تک تحریم ثابت نہ ہو اباحت اصلیہ شرعیہ پر عمل سے کوئی مانع نہیں،
قال اﷲ تعالٰی خلق لکم مافی الارض جمیعا۴؎ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
   اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا اللہ وہی ہے جس نے تمھارے لئے وہ سب کچھ جو زمین میں ہے پیدا کیا۔ واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم (ت)
(۴؎ القرآن الکریم   ۲ /۲۹)
مسئلہ ۳۶: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ دستار کے شملہ کہاں تک رکھنا مسنون ہے۔ اور کہاں تک رکھنا مباح اور کہاں تک رکھنا ممنوع وغیر مشروع حرام ہے۔ اگر کسی شخص نے ڈیڑھ ہاتھ شملہ رکھادوسرے نے بولا ڈیڑھ ہاتھ شملہ رکھنا حرام ہے۔ آیایہ کہنا بموجب شرع کے ہے یانہیں؟ آیایہ قائل گنہگار ہوایانہیں؟ بینو ا توجروا(بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ت)
الجواب

شملے کی اقل مقدار چار انگشت ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک ہاتھ اور بعض نے نشتستگاہ تک رخصت دی یعنی اس قدر کہ بیٹھنے سے موضع جلوس تک پہنچے، اور زیادہ راجح یہی ہے کہ نصف پشت سے زیادہ نہ ہو جس کی مقدار تقریبا وہی ایک ہاتھ ہے۔ حد سے زیادہ داخل اسراف ہے۔ اور یہ نیت تکبر ہو تو حرام ، یونہی نشست گاہ سے بھی نیچا مثلا رانوں یا زانوں تک یہ سخت شنیع وممنوع ، اور بعض نے انسان بدوضع آوارہ رندوں کی وضع ہے۔ ڈیڑھ ہاتھ کا شملہ اگر بہ نیت تکبر نہ ہو تو اسے حرام کہنا نہ چاہئے۔ خصوصا اس حالت میں کہ بعض علماء نے موضع جلوس تک بھی اجازت دی مگر حرام کہنے والے کو گنہگار بھی نہ کہیں گے جبکہ اس نے حرام بمعنی عام یعنی ممنوع لیا ہو جو مکروہ تحریمی کو شامل ہے۔
اشعۃاللمعات شرح مشکوٰۃ میں ہے :
اقل مقدارِ عذ بہ  چہار انگشت ست وتطویل آں متجاوز از نصف ظہر بدعت ست وداخل اسبال واسراف ممنوع واگر بطریق تکبر وخیلاء باشد حرام و الا مکروہ مخالف سنت ۱؎۔
پگڑی کے شملہ کی کم سے کم مقدار چارانگلیوں کے برابر ہے اور شملے کو اتنا لمبارکھنا کہ آدھی پشت سے بھی آگے چلا جائے بدعت ہے کپڑا لٹکانے میں اسراف ہے جو ممنوع ہے۔ اور اگر تکبر اور تفاخر کے طو رپر ہو تو حرام ہے۔ ورنہ مکروہ اور خلاف سنت ہے۔ (ت)
 (اشعۃ اللمعات    شرح مشکوٰۃ المصابیح    کتاب اللباس   فصل دوم  مطبع نولکشور لکھنؤ    ۳/ ۵۴۵)
دستوار اللباس میں ہے :
از فتاوٰی حجۃ وجامع آوردہ کہ الذنب ستۃ انواع للقاضی خمس وثلثون اصابع واللخطیب احدی وعشرون اصابع وللعالم سبع وعشرون اصابع وللمتعلم سبعۃ عشر اصبعا وللصوفی سبع اصابع وللعامی ار بع اصابع  ۲؂۔
فتاوٰی حجۃ اور جامع میں نقل کی گیاہے کہ شملہ کی چھ اقسام ہیں: (۱) قاضی کے لئے ۳۵ انگشت کے بمقدار (۲) خطیب کے لئے بمقدار ۲۱ انگشت (۳)عالم کے لئے بمقدار ۲۷ انگشت (۴) متعلم کے لئے بمقدار ۱۷ انگشت (۵) صوفی کےلئے بمقدار ۷ انگشت (۶) عام آدمی کے لئے بمقدار ۴ انگشت ۔ (ت)
 (۲؎ دستور اللباس)
شرح شرعۃ الاسلام میں ہے :
قال فی خذانۃ الفتاوٰی والمستحب ارسال ذنب العمامۃ بین کتفیہ الی وسط الظھر ومنھم من قال الی موضع الجلوس ومنھم من قدر بالشبر ۱؎۔
خزانۃ الفتاوٰی میں فرمایا :  پگڑی کا شملہ دو کندھوں کے درمیان نصف پشت تک لٹکانا مستحب (موجب ثواب) ہے۔ اور بعض اہل علم نے فرمایا : سرین تک ہو جبکہ بعض نے اس کی مقدار صرف ایک بالشت بتائی ہے۔ (ت)
 (۱؎ شرح شرعۃ الاسلام     فصل فی سنن اللباس     مکتبہ الاسلامیہ کوئٹہ  ص۴۔۲۸۳)
عین العلم میں ہے :
یرسل الذیل بین الکتفین الی قدرالشبر اوموضع القعود اونصف الظھور وھو وسط مرضی والکل مروی ۲؎۔
شملہ دو کندھوں کے درمیان ایک بالشت کی مقدار لٹکائے (اور چھوڑے) یا سرین تک ہو یا نصف پشت تک ہو اور یاہ متوسط اور پسندیدہ طریقہ ہے اوریہ سب کچھ مروی ہے۔ (ت)
 (۲؎ عین اعلم     الباب السابع فی الاتباع فی المعیشۃ     مطبع امرت پریس لاہور    ص۲۴۸)
شرح علامہ علی قاری میں ہے :
الاول اشھر واکثر واظھر والکل قدجمعتہ فی رسالۃ مستقلۃ اھ ۳؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
پہلا قول اکثر ور زیادہ مشہور ہے اور زیادہ ظاہر ہے اور ان سب اقوال کو میں نے ایک مستقل رسالہ میں جمع کیا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)
 (۳؎ شرح عین العلم لملا علی قاری (بین السطور)    مطبع امرت پریس لاہور    ص۲۴۸)
Flag Counter